14-06-2025

رواں مالی سال کے پہلے9 ماہ میں حکومتی قرضوں کا حجم 76 ہزار7 ارب تک پہنچ گیا،اعلیٰ تعلیم کیلئے 61.1ارب مختص کیے گئے:سینیٹر اورنگزیب
پاور سیکٹر میں تاریخی ریکوری،پٹرولیم مصنوعات 4.5 ، کیمیکل 5.5، فارماسوٹیکل 2.3، کان کنی اور کھدائی کی گروتھ 3.4 فیصد رہی



معیشت کا ڈی این اے بدلنا چاہتے،حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی، 800ارب قرضوں کی ادائیگی میں بچائے

انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا،رئیل سٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں 3 فیصد تک اضافہ ،پاسکو کرپشن کا گڑھ ، ختم کرنے جارہے ہیں

پالیسی ریٹ 11 فیصد پرآگیا، آئی ایم ایف پروگرام سے اعتماد بحال ہوا،نگران حکومت میں ہونیوالے اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں:وزیر خزانہ

13 جون کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث،پارلیمانی جماعتوں کو وقت دیا جائیگا،23 جون کومختص ضروری اخراجات پر بحث ہوگی:شیڈول

اسلام آباد (بیورورپورٹ) آئندہ مالی سال 26-2025 کا وفاقی بجٹ آج پیش کیا جائیگا ، سپیکر سردار ایاز صادقنے وفاقی بجٹ کیلئے قومی اسمبلی اجلاس کے شیڈول کی منظوری دیدی،شیڈول کے مطابق وفاقی بجٹ آج قومی اسمبلی میں پیش کیا جائیگا جبکہ 11 اور 12 جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا، 13 جون کو قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پر بحث ہوگی، پارلیمانی جماعتوں کو بجٹ کیلئے وقت دیا جائیگا،وفاقی بجٹ پر بحث 21 جون تک جاری رہے گی اور 22 جون کو قومی اسمبلی کا اجلاس نہیں ہوگا،23 جون کو مالی سال 26-2025 کیلئے مختص ضروری اخراجات پر بحث ہوگی جبکہ 24 اور 25 جون کو مطالبات، گرانٹس اور کٹوتی کی تحاریک پر بحث اور ووٹنگ ہوگی، فنانس بل کی منظوری 26 جون کو قومی اسمبلی سے لی جائیگی مزید برآں 27 جون کو سپلیمنٹری گرانٹس سمیت دیگر امور پر بحث اور ووٹنگ ہوگی۔


اسلام آباد (بیورورپورٹ)وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اورنگزیب نے کہا ہے گلوبل جی ڈی پی گروتھ 2025میں 2.8فیصد ہے، استحکام کی جانب گامزن ہیں، کامیابی سے مہنگائی پر قابو پا لیا، پاور سیکٹر اصلاحات میں 1 سال میں تاریخی ریکوری ہوئی ، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی گورننس میں بہتری آئی ،فری لانسرز نے 400 ملین ڈالرز کمائے ہیں،اقتصادی سروے رپورٹ کے مطابق پٹر ولیم مصنوعات کی گروتھ اضافہ کے ساتھ 4.5 فیصد رہی، کیمیکل گروتھ کمی کیساتھ 5.5 فیصد رہی، فارماسوٹیکل میں گروتھ اضافہ کیساتھ 2.3 فیصد رہی، کان کنی اور کھدائی کی گروتھ کم ہو کر 3.4 فیصد رہی، جولائی سے مارچ کے دوران تعلیم پر جی ڈی پی تناسب سے 0.8 فیصد خرچ ہوا، اعلیٰ تعلیم کیلئے 61.1 ارب مختص کیے گئے، مجموعی شرح خواندگی 60.6، مردوں کی شرح خواندگی 68 اور خواتین کی 52.8 فیصد رہی، پرائمری سطح پر داخلے 2.483 کروڑ تک پہنچ گئے، پاکستان میں 269 یونیورسٹیاں ہیں جن میں 160 سرکاری اور 109 نجی ہیں، سکل ڈویلپمنٹ پروگرام کے تحت 60 ہزار سے زائد نوجوانوں کو آئی ٹی، زراعت، کان کنی، تعمیرات کے شعبوں میں تربیت دی گئی،عالمی گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، سیلاب نے 3.3 کروڑ افراد کو متاثر کیا اور 15 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، پاکستان میں سال 2024 کا اوسط درجہ حرارت 23.52 ڈگری رہا، پاکستان میں سال 2024 میں 31 فیصد زائد بارشیں ہوئیں،اقتصادی سروے میں بتایا گیا کل آمدن 13.37 کھرب رہی، ٹیکس آمدن میں 25.8 فیصد اضافہ ہوا، ٹیکس آمدن 9.14 فیصد رہی، نان ٹیکس آمدن میں 68 فیصد اضافہ ہوا، نان ٹیکس آمدن 4.23 کھرب رہی، ٹوٹل اخراجات 16.34 کھرب رہے، کرنٹ اخراجات میں 18.3 فیصد اضافہ رہا،کرنٹ اخراجات 14.59 فیصد رہے، ترقیاتی اخراجات میں 32.6 فیصد اضافہ ہوا، 1.54 کھرب رہا، مالیاتی خسارہ 2.6 فیصد رہا، پرائمری سرپلس 3 فیصد رہا،وزیر خزانہ نے کہا،پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آنے سے ڈیبٹ سروسنگ کی مد میں کافی بچت ہوئی، پنشن ریفارمز کے تحت ڈیفائنڈ کنٹری بیوشن پنشن سسٹم کی طرف جا چکے ہیں، سب سے پہلے لیکج کو روکنا ہے، 43 وزارتیں اور400 محکمے ختم کئے جارہے ہیں، رائٹ سائزنگ سے معیشت میں بہتری آئے گی، ملکی معاشی ریکوری کو عالمی منظرنامے میں دیکھا جائے گا، 2023 میں ہماری جی ڈی پی گروتھ منفی تھی اور مہنگائی کی شرح 29 فیصد سے زائد ہوچکی تھی، معیشت میں بتدریج بہتری آرہی ہے اور افراط زر میں ریکارڈ کمی واقع ہوئی،2023 میں2ہفتوں کیلئے ذخائر موجود تھے، 2023 کے بعد جو ریکوری شروع ہوئی وہ درست سمت میں گئی، 2023 میں مہنگائی 29 فیصد سے کراس کر گئی تھی، ابھی مہنگائی کی شرح 4.6 فیصد ہے، رواں مالی سال جی ڈی پی گروتھ 2.7فیصد رہی، پالیسی ریٹ 22 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ گیا،سینیٹر اورنگزیب نے کہا جی ڈی پی میں اضافہ معاشی ترقی کی علامت ہے، پاور سیکٹر ریفارمز میں ریکوریز ریمارک ایبل ہیں، معاشی ریکوری کو عالمی منظر نامے میں دیکھا جائے، ہم نے 24 ایس او ایز کو پرائیویٹائزیشن کے حوالے کیا،اچھے کاموں کی بنیاد وزیراعظم شہبازشریف نے رکھی، نگران حکومت نے بھی اچھے کاموں میں تسلسل برقراررکھا، نگران حکومت میں اچھے اقدامات کو سراہتا ہوں، رواں مالی سال زرمبادلہ کے ذخائر میں شاندار اضافہ ہوا، ہم نے معیشت کے ڈی این اے کو بدلنا ہے جس کیلئے سٹرکچرل ریفارمز ضروری ہیں، ہم کئی وزارتوں کو ڈیل کر چکے ہیں اور کئی محکموں کو ضم کرچکے ہیں، توانائی اصلاحات آگے بڑھا رہے ہیں، ہم نے اپنا فٹ پرنٹ ٹھیک کرنا ہے، جی ڈی پی کے تناسب سے قرضوں کی شرح 68 سے کم ہو کر 65 فیصد پر آگئی، پبلک فنانس پر بہت بات ہوتی ہے، پچھلے سال پالیسی ریٹ نیچے آیا،آئی ایم ایف پروگرام سے ہمارا اعتماد بحال ہوا، عالمی مالیاتی فنڈ کے پروگرام کا مقصد پائیدار معاشی استحکام کا حصول ہے، آئی ایم ایف پروگرام سے ہمیں ڈھانچہ جاتی اصلاحات کیلئے وسائل دستیاب ہوئے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی 5 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا، ٹیکنالوجی کے استعمال سے ٹیکس محصولات میں اضافہ ہوا، شعبہ توانائی میں شاندار اصلاحات ہوئیں، ڈسکوز میں پیشہ ور بورڈز لگائے جس سے ڈسٹری بیوشن لاسز میں کمی آئے گی،وزیر خزانہ نے کہا بھارتی جارحیت پر افواج پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا، اکنامک محاذ پر بھی ایک جنگ چل رہی تھی، ہماری افواج پاکستان نے اپنا لوہا منوایا، بیرونی شعبے میں دہرے بحرانوں کا المیہ رہا ہے، ایس آئی ایف سی کا فوکس انرجی، آئی ٹی، زراعت اور مائننگ پر ہے، لوکل انویسٹرز آئیں گے تو فارن انویسٹرز آئیں گے، 800 ارب قرضوں کی ادائیگی میں بچائے، مالیاتی ادارے ہمارے ساتھ کھڑے ہیں، قرضوں کی ادائیگیوں میں جتنا بھی بچے گا اس کو دیگر سیکٹر میں لے جائیں گے، خدمات کے شعبے میں 2فیصد سے زائد،رئیل سٹیٹ اور تعمیرات کے شعبے میں3 فیصد تک اضافہ ہوا ، زرعی شعبے کا اضافہ محض 0.6 فیصد تک بڑھا ،لائیو سٹاک کی وجہ سے زراعت کے شعبے میں ترقی ہوئی، برآمدات 6.8 فیصد اضافے سے 27 ارب 30 کروڑ ڈالر پر پہنچ گئیں، معیشت کا حجم 372 ارب ڈالر کے مقابلے میں 411 ارب ڈالر ہو گیا، فی کس آمدنی 162 ڈالر اضافے کے بعد 1824 ڈالر تک پہنچ گئی ہے،وفاقی وزیر نے کہا حکومت پرائیویٹ سیکٹر سے آئندہ اپنی شرائط پر قرض لے گی، رواں مالی سال انفرادی فائلرز کی تعداد میں دگنا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، بیرون ملک پاکستانی روشن ڈیجیٹل اکاؤنٹس کے ذریعے انویسٹ کررہے ہیں، پاسکو کرپشن کا گڑھ ہے،ختم کرنے جارہے ہیں، 2 سال کے دوران ترسیلات زر میں تقریباً 10 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا، مشینری کی امپورٹ میں اضافہ معیشت کیلئے خوش ا?ئند ہے،اہم فصلوں کی پیداوار میں 13.49 فیصد کمی ہوئی، آلو کی فصل میں 11.5 فیصد، پیاز میں 15.9 فیصد اضافہ ہوا، مکئی میں 15.4 فیصد،چاول میں 1.4 فیصد کمی ہوئی، اسی طرح کپاس میں 30 فیصد، گندم میں 8.9 فیصد، گنے کی پیداوار میں 3.9 فیصد کمی ہوئی ہے۔